خواتین و حضرات آپ دیکھ رہے ہیں ڈیلی پیغام ٹی وی اور ہم آپ کے لئے آج ایسا موضوع لائے ہیں گفتگو کے لئے جس کا شکار ہمارے معاشرے میں ہر دوسرا بندہ ہے۔ آج ہم جس بیماری کے بارے میں بات کریں گے اس بیماری کے متعلق کئی غلط فہمیاں (misconceptions) پائی جاتی ہیں اور یہ بیماری جو ہے وہ ہے بلڈ پریشر۔ بہت سے لوگ یہ بات نہیں جانتے کہ وہ بلڈ پریشر کے مریض ہیں۔ آج ہم جس بارے میں بات کریں گے وہ ہے کہ بلڈ پریشر آخر کیا بیماری ہے اور ہمیں غذا اور روزمرہ کی زندگی کیسے اسے متاثر کرتی ہے۔
دیکھیں جو لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ مجھے بلڈ پریشر ہے یا اسے بلڈ پریشر ہے۔ تو یہ الفاظ کچھ غیر مناسب ہیں کیونکہ بلڈ پریشر تو ہر انسان میں ہے 120/80 ہر بندے میں یہ بلڈ پریشر ہے۔ اگر ایک بندے میں یہ بلڈ پریشر ایک خاص حد سے بڑھ جائے جو کہ کہا جاتا ہے کہ اگر اوپر والا بلڈ پریشر 120 سے بڑھ کر 140 ہو جائے اور نیچے والا 80سے بڑھ کر 90 ہو جائے تو یہ کہا جاتا ہے کہ ایسے انسان کو ہائی بلڈ پریشر ہے۔ ہم لوگ 140/90 سے زیادہ کے بلڈ پریشر کو ہائی بلڈ پریشر کہتے ہیں۔
اب اگر ہم بات کریں کہ ہائی بلڈ پریشر ہونے کی علامات کیا ہیں تو جو ایک علامت سب میں آتی ہے اور اکثر لوگ کہتے بھی ہیں کہ میرا بلڈ پریشر ہائی ہو گیا مجھے غصہ آرہا ہے۔
بلڈ پریشر کو میڈیکل الفاظ میں سائیلینٹ کِلر کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق بلڈ پریشر کی کوئی علامات نہیں ہوتیں۔ کسی بھی اور بیماری کی علامات ظاہر ہوجانے لگ جاتی ہیں لیکن بلڈ پریشر کی کوئی علامات نہیں ہوتی۔
اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارا سر درد کر رہا ہے ہم ڈاکٹر کے پاس گئے تو ہمارا بلڈ پریشر ہائی آیا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بلڈ پریشر ہائی ہونے کی وجہ سے سر درد ہو بلکہ سردرد کی وجہ سے آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہو رہا ہوتا ہو۔ اسی لیے پہلے آپ سر درد کو ختم کریں اور بعد میں بلڈ پریشر خود بخود ہی نارمل ہوجائے گا۔
اکثر لوگ یہ بھی ایک غلطی کرتے ہیں کہ وہ سنگل ریڈنگ پر یقین کر کے خود کو بلڈ پریشر کا مریض سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی اگر آپ کو کوئی پریشانی ہے یا سر میں درد ہے اور آپ ڈاکٹر کے پاس گئے ہیں اور وہاں آپ کا بلڈ پریشر ہائی نکل آیا ہے تو آپ نے اس بات پر پکے نہیں ہوجانا کہ آپ کو ہائی بلڈ پریشر ہے بلکہ ملٹیپل ریڈنگز لینی چاہیے۔ یعنی 2ہفتوں تک لگاتار ایک نارمل حالت میں جب مریض کو کوئی پریشانی نہ ہو تب بھی ریڈنگز لینی چاہیے۔ اگر اس طرح کرنے سے مسلسل 140/90 سے اوپر ریڈنگ آئے تو آپ مریض کوکہہ سکتے ہیں کہ اس کو بلڈ پریشر ہوا ہے۔
پھر اگر ہم بات کریں بلڈ پریشر چیک کرنے والے آلے کی تو بعض اوقات اس ڈیوائس میں بھی خرابی ہوسکتی ہے۔ بلڈ پریشر کو چیک کرنے کے لئے ہم زیادہ تر ان ڈائریکٹ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس میں خون کی نالیوں میں باہر سے پریشر دیا جارہا ہوتا ہے یہ عام حالت میں کافی حد تک صحیح بھی ہوتا ہے لیکن بڑھاپے میں جب نالیاں تنگ ہوجاتی ہیں تب یہ طریقہ صحیح نتائج نہیں بھی دے سکتا۔
صحیح نتائج صرف ہمیں لیبارٹری میں ملتے ہیں جہاں ڈائریکٹ خون کی نالی میں کنولا ڈال کے چیک کیا جاتا ہے اور سامنے کمپیوٹر پر صحیح ریڈنگ آجاتی ہے وہ سب سے اہم ریڈنگ ہوتی ہے۔
اگر ہم بات کریں کہ ایسی کونسی غذا اور لائف سٹائل ہے جس کی وجہ سے بلڈ پریشر عام ہو گئے ہیں تو سب سے بڑی وجہ ہے کہ ہماری 50% آبادی ایسی ہے جسے بلڈ پریشر ہے لیکن اس کو پتا ہی نہیں ہے کہ اس کو بلڈ پریشر ہے۔ ایک تو یہ کہ ہر آدمی کو چاہیے کہ وہ ملٹیپل اوقات میں اپنا بلڈ پریشر چیک کروائے جب بھی اس کو وقت ملے تاکہ اس کو اپنی صحت کے بارے میں مکمل آگاہی ہو اور زیادہ پریشانیوں سے وہ بچ جائے۔