اللہ کو 2 سیکنڈ میں کیسے راضی کریں؟ 348

اللہ کو 2 سیکنڈ میں کیسے راضی کریں؟

اگر آپ غور کیجئے تو ہماری زندگی کا مقصد ہی اللہ کی یاد ہے اللہ نے پیدا جو کیا عبادت کے لئے تو عبادت کا اصل مقصد اللہ کی یاد تو اصل مقصود اللہ کی یاد ہے اسی سے یہ دنیا قائم ہے اور دنیا کی ہر چیز اللہ کا ذکر کرتی ہے جو بھی زندہ چیز ہے وہ ذکر کرتی ہے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :-

جو کوئی بھی چیز ہے وہ اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے تم اس کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے تو ہم نہیں سمجھ سکتے لیکن ہر چیز اللہ کی تسبیح بیان کررہی ہوتی ہے ہمیں ایک مرتبہ اس کا تجربہ بھی ہوا امریکا میں ایک ایسی ریاست میں جانےکا موقع ملا جہاں کوئی پندرہ بیس پاکستانی ڈاکٹر ایک ہی جگہ رہتے تھے۔ تو ایک ہفتہ ان کے ہاں قیام تھا ان میں سے ایک صاحب جو تھے وہ دل کے سپیشلسٹ تھے قدرتا انہی کے ہاں قیام تھا وہ مجھے کہنے لگے کہ حضرت آپ نے ہماری روحانی بیماریوں کا علاج تو ہمیں بتا دیا اب میں آپ کو صبح ہاسپٹل لے جاؤں گا اور آپ کے دل کو چیک کروں گا ہم نے کہا جی ٹھیک ہے

چنانچہ وقت تھا ہم اس کے ساتھ ہاسپٹل چلے گئے انہوں نے ہمیں جاکے ایک کمرے میں مشین کے آگے لٹالیا اور دل کو چیک کرنا شروع کیا ایکو کارڈیو گرام اس کو کہتے ہیں وہ دل کی تصویر آجاتی ہے اور دل کی رگوں میں کیسے خون جارہا ہے اور آرہا ہے اس کی پوری تفصیل اس کے اندر ہوتی ہے جب انہوں نے سکرین پر دکھایا تو مجھے کہنے لگے دیکھیں یہاں سے خون جارہا ہے اور یہاں سے آرہا ہے اور اتنی مقدار سے جارہا ہے اور آپ کی شریانی اس وقت ٹھیک ہیں۔ اور اسی فیصد کام کررہی ہیں سو کی بجائے تو اس عمر میں اسی فیصد بہت اچھی چیز تھی تو کہنے-لگے میں بہت مطمئن ہوں آپ کے دل کی کفیت سے پھر اس کے بعد کہنے لگے

میں آپ کو آپ کے دل کی آواز سناؤں میں نے کہا سنائیں تو انہوں نے ایک بٹن آن کیا جیسے ہی بٹن آن کیا تو آواز آنے لگ گئی جیسے دل جو ہے خون کو پمپ کررہا ہے وہ کہنے لگاجی ہماری میڈیکل کی کتابوں میں لکھا ہے کہ دل جب خون کو پمپ کرتا ہے تو لب ڈب کی آواز آتی ہے اس کو ہم نے بھی سنا لیکن قدرتا میرا ذہن دوسری طرف گیا میں نے کہا ڈاکٹر صاحب اصل وجہ یہ تھی کہ یہ کا-فر لوگ ہیں یہ دل کی آواز کو سنتے ہیں تو ان کو لب ڈب نظر آتا ہے آپ ذرا غور کیجئے مجھے تو یہ کچھ اور آواز نظر آتی ہے تو وہ غور سے مجھے دیکھنے لگے میں نے کہا یہ تو دل لب ڈب نہیں کررہا یہ تو رب رب رب رب کررہا ہے۔

جب اس کو یہ کہا تو وہ بڑے حیران ہوئے پھر کہنے لگے اچھا اسے دیکھتے ہیں پھر انہوں نے غور سے اسے دیکھا اور پھر کہنے لگے حضرت رب رب کی آواز بالکل اس کے زیادہ قریب ہے انہوں نے فیصلہ کر دیا کہ واقعی انسان کا دل جو خون پمپ کررہا ہوتا ہے وہ آواز رب رب کی پیدا ہورہی ہوتی ہے میں نے کہا آج-مسئلہ سمجھ میں آگیا اگر ہر ذی روح کا دل جو خون پمپ کرتا ہے اس کی آواز رب رب پکار رہی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ جتنی ذی روح دنیا کے اندر ہیں سب کے جسم اللہ کا ذکر کر رہے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے تو قرآن مجید میں فرمادیا ۔تو واقعی بات ایسی ہے کہ ہمارا جسم اللہ کا ذکر کررہا ہوتا ہے باقی ہم خود اللہ کا ذکر کریں تو پھر کامل جسم اللہ کا ذکر کرے گا ورنہ آدھا تو کر ہی رہاہوتا ہے اور باقی آدھا غافل ہوتا ہے

تو ہمیں اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کرنا چاہئے تا کہ اس کے اثرات ہمارے دلوں پر مرتب ہوں چنانچہ انسان کا یہ جو ذکر ہے یہ ایک انسان کے لئے جان کی مانند ہے روحانی جان کی مانند ہے چنانچہ حدیث پاک میں آتا ہے ابو موسی اشعری ؓ روایت کرتے ہیں۔ کہ مثال اس شخص کی جو ذکر کرتا ہے اور اس کی جو ذکر نہیں کرتا زندہ اور مردہ کی مانند ہے یعنی ذکر کرنے والا انسان زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا شخص وہ مردہ کی مانند ہے تو یہ روحانی زندہ اور روحانی مردہ ہے دیکھئے اللہ کے حبیب ﷺ نے چودہ سوسال پہلے بتا دیا کہ ذکر کرنے والا انسان زندہ کی مانند اور ذکر نہ کرنے والا مردہ کی مانند-ہے پھر نبی ﷺ نے ایک اور بہت پیاری مثال سے بات سمجھائی کہ جس طرح خزاں کے موسم میں درختوں کے پتے جھڑ جاتے ہیں

اور خشک ہوجاتے ہیں اگر اس وقت درمیان میں ایک بالکل سر سبز درخت ہوتو وہ کتنا حسین اور اچھا لگتا ہے نبی ﷺ نے فرمایا کہ: اللہ کا ذکر کرنے والا غافلین میں بیٹھ کر ایسے ہیں جیسے کہ فرار ہونے والوں سے قتال کرنے والا شخص ہوتا ہے۔جیسے خزاں کے موسم میں یہ برگ و بار درختوں کے درمیان سرسبز درخت ہوتا ہے۔ اس طرح غافل لوگوں کے درمیان بیٹھ کر ذکر کرنے والا انسان اللہ کی نظر میں یوں حسین اور اچھا معلوم ہوتا ہے ایک اور حدیث پاک میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :کوئی شکار یعنی پرندہ شکار نہیں ہوتا اور کوئی ٹہنی نہیں ٹوٹتی مگر یہ کہ تسبیح کی قلت کی وجہ سے یعنی جب وہ تسبیح کم کرتےہیں پھر شکارہوجاتے ہیں اللہ کی شان دیکھئے کہ پرندے جب تک اللہ کا ذکر کرتے رہتے ہیں اس وقت تک کوئی

ان کو شکار نہیں کرسکتا جب ذکر میں کوتاہی ہوتی ہے کمی ہوتی ہے تو اس وقت گویا ان کو موت دے دی جاتی ہے ۔شکریہ

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں