بسم الله الرحمن الرحيم السلام علیکم ۔۔۔سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:” میں ایک متقی وپرہیزگار شخص کے جنازہ میں شریک ہوا۔ اسے بصرہ کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ تدفین کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف چلے گئے اور میں قریبی جنگل کی طرف چلا گیا۔ وہاں اللہ کی قدرت میں غوروفکر کرتارہا ۔ ایک جگہ بہت گھنے درخت تھے۔ میں نے جب بغور دیکھا تو ان
درختوں کے پیچھے ایک غار نظر آیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: ”شاید! یہ غار ڈاکوؤں اورلٹیروں کی آماجگاہ ہے۔ جب میں اس غار کے قریب گیا تو دیکھا کہ وہاں نورانی چہرے والا ایک حسین وجمیل نوجوان اُون کا جبّہ پہنے بڑے خشوع وخضوع سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں اس کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔ اس نوجوان نے رکوع وسجود کے بعد سلام پھیرا اور میری جانب متوجہ ہوا ۔ میں نے سلام کیا اس نے جواب دیا۔ میں نے اس سے پوچھا :”اے میرے بھائی ! آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟ ”اس نے کہا :”میں ملکِ ”شام ”کا رہائشی ہوں ۔ ” میں نے پوچھا :” آپ شام سے بصرہ کس مقصد کے لئے آئے ہیں؟” اس نے جواب دیا:” میں نے سنا تھا کہ بصرہ اوراس کے قریبی علاقوں میں عابدین وزاہدین اور باعمل علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ بہت زیادہ ہیں۔ چنانچہ میں شام سے بصرہ چلا آیا تاکہ ان اولیاء کرام
رحہم اللہ تعالیٰ سے اکتسابِ فیض کرسکوں اوران سے علم وعمل سیکھوں ۔ میں نے اس سے پوچھا: ”اے بندئہ خدا عزوجل !تمہارے کھانے پینے کا اِنتظام کس طرح ہوتاہے؟ یہاں جنگل میں تمہیں کھاناکیسے میسر آتاہوگا؟”اس نے جواب دیا:” جب بھوک لگتی ہے تو درختوں کے پتے کھالیتاہوں اورجب پیاس محسوس ہوتی ہے توجنگل میں موجودتالابوں سے پانی پی لیتاہوں۔”میں نے کہا:” اے نوجوان ! میری خواہش ہے کہ میں تمہیں عمدہ آٹے کی دو روٹیاں پیش کردیا کروں تاکہ تم انہیں کھا کر عبادت پر قوت حاصل کرسکو ۔”تو وہ نوجوان کہنے لگا:” ایسی باتیں چھوڑو ، میں نے کئی سالوں سے کھانا نہیں کھایا، پتے کھاکر ہی گزارہ کررہا ہوں۔” میں نے کہا :”اے میرے بھائی! ”اگر تم ہمارے کھانے کو قبول کرلو گے تو ہماری خوش قسمتی ہوگی ۔ تم ہماری طرف سے کچھ نہ کچھ قبول کرلو تاکہ ہمیں
برکتیں حاصل ہوں ۔ ” وہ نوجوان بولا: ”اچھا اگر تم بضد ہوتو جَو کے بغیر چھنے آٹے کی دو روٹیاں لے آؤ اور سالن کی جگہ نمک لانا۔ \حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:پھر میں اس نوجوان کے پاس سے چلا آیا اور ”جَو ”کے بغیر چھنے آٹے کی دو روٹیاں پکوائیں، ان پرنمک رکھا اورواپس اسی جنگل کی طرف چل دیا۔ جب میں غار کے قریب پہنچا تو وہاں کا منظردیکھ کر میں بہت حیران ہوا۔ میں نے دیکھا کہ ایک خونخوار شیر غار کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے ۔ میں نے دل میں کہا:ـ” ایسا نہ ہو کہ اس خوانخوار درندے نے اس نوجوان کو مارڈالا ہو۔” میں بہت پریشان ہوگیا تھا۔پھر میں ایک اونچی جگہ پر چڑھا جہاں سے غار کا اندرونی حصہ نظر آرہا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہ ! وہ نوجوان صحیح وسالم ہے اوراپنے رب کی بارگاہ میں سربسجود ہے ۔ میں نے
بلند آواز سے اسے پکارا:” اے میرے بھائی ! تجھے کیا ہوگیا ہے کہ تُو اپنے آس پاس کے حالات سے بے خبر ہے؟ شاید عبادتِ الٰہی میں مشغولیت کی وجہ سے تجھے باہر کے حالات کی خبر نہیں ۔” میری یہ آواز سن کر اس نوجوان نے نماز میں تخفیف کی اور سلام پھیرنے کے بعد کہنے لگا:” اے اللہ کے بندے! تم نے ایسی کیا چیز دیکھ لی ہے جس کی وجہ سے تم اتنے پریشان ہو رہے ہو ؟”تو میں نے کہا:” وہ دیکھو غار کے دہانے پر ایک خونخوار شیر گھات لگائے بیٹھا ہے اورایسا لگتا ہے کہ وہ ابھی حملہ کردے گا ۔ اس نے مجھے مخاطب کر تے ہوئے کہا :”اے خدا کے بندے! اگر تُواس ذات سے ڈرتا جس نے اس شیر کو پیداکیا ہے تو یہ تیرے لئے بہت بہتر تھا۔ ” پھر اس نوجوان نے شیر کی طرف توجہ کی اورکہا:”اے درندے ! بے شک تُو اللہ کے کتوں میں سے ایک کتاہے ۔ اگر تجھے بارگاہِ
خداوندی سے حکم ملا ہے کہ تُو مجھے کوئی نقصان پہنچائے تو پھرمیں تجھے روکنے کی قدرت نہیں رکھتا اور اگر تجھے اللہ ربُّ العزَّت کی طرف سے حکم نہیں ملاتو پھر مجھے تیرا کوئی خوف نہیں۔ پھر تیری بہتری اسی میں ہے کہ تُو یہاں سے چلا جا، تُو خواہ مخواہ میری اورمیرے بھائی کی ملاقات میں حائل ہورہا ہے ۔ ابھی اس نیک خصلت نوجوان نے اپنی بات مکمل بھی نہ کی تھی کہ وہ شیر دہاڑنے لگا اوردم ہلاتا ہواوہاں سے اس طرح بھاگا جیسے اسے اپنا کوئی شکار نظر آگیا ہو۔جب شیر وہاں سے چلا گیا تو میں اس نوجوان کے پاس آیااوریہ کہتے ہوئے دونوں روٹیاں اس کے سامنے رکھ دیں کہ”اے میرے دوست ! جو چیز تُونے طلب کی تھی وہ حاضر ہے۔” اس نے روٹیاں لیں اورانہیں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگا پھر وہ رونے لگا،روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ پھر اس
نے روٹیاں نیچے رکھ دیں اورآسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا :” اے میرے پاک پروردگار ! میں تجھے تیرے عرشِ عظیم کا واسطہ دے کر التجاء کرتاہوں کہ اگر تیری بارگاہ میں میرا کچھ مرتبہ ومقام ہے اور میں تیری بارگاہ میں مردو دنہیں بلکہ مقبول ہوں تو اے میرے اللہ ! مجھے اپنے قُربِ خاص میں بُلا لے اور میری ر وح قبض فرمالے ۔حضرت سیدنا حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :” ابھی اس نوجوان نے یہ دعا مکمل ہی کی تھی کہ فوراًاس کی بے قرار روح اس دُنیوی زندگی کی قید سے آزاد ہوکر عالَمِ بالا کی طرف پرواز کر گئی ۔” میں واپس اپنے علاقے میں آیا اور چند متقی وپرہیزگار لوگوں کو جمع کیا تاکہ ہم اس نوجوان کی تجہیز وتکفین کرسکیں۔ میں اپنے ان ساتھیوں کو لے کر غار کی طرف چل دیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ غار میں تو کوئی بھی موجود نہیں جس
خوش نصیب نوجوان کی لاش کو میں ابھی ابھی یہاں چھوڑ کر گیا تھا اب وہاں اس کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ میں بہت حیران وپریشان تھا کہ آخر اس کی لاش کہاں غائب ہو گئی۔ اچانک مجھے ایک غیبی آواز سنائی دی، کوئی کہنے والا کہہ رہا تھا:” اے ابوسعید (یہ حضرت سیدناحسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی کنیت تھی )!اپنے رفقاء سے کہو کہ وہ واپس چلے جائیں اب اس نوجوان کی لاش کبھی نہیں ملے گی کیونکہ اس کی لاش کو یہاں سے اٹھا لیا گیا ہے۔معزز خواتین و حضرات۔۔۔ارشاد باری تعالی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کے رہے گا۔ قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ سوائے ان لوگوں
کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اللہ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے۔ اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وہ تو حقیقتاً اللہ تعالی کی طرف سچا رجوع کرتا ہے ۔ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:”سراپا عدل و فضل پر مبنی حکم الہی ہے کہ : “گناہ سے تائب ہونے والا ایسے ہی ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں!!” بلکہ اللہ تعالی نے شرک، معصوم جان کے قتل اور زنا سے توبہ کرنے والے کے لیے ضمانت لکھ دی ہے کہ اس کے گناہ کو نیکی میں بدل دے گا ، اللہ کا یہ حکم کسی بھی گناہ سے تائب ہونے والے کے لیے عام ہے۔اور ویسے بھی اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ آپ لوگوں سے کہہ دیجئے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف
کر دیتا ہے کیونکہ وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔لہذا اس آیت کے عموم سے کوئی ایک گناہ بھی مستثنی نہیں ہے، تاہم یہ خصوصیت صرف انہی لوگوں کے لیے ہے جو توبہ کرتے ہیں۔ دوسری جانب اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کو بھی قرآن مجید میں ” المُتَّقِيْنَ ” [یعنی متقی ] کہا ہے جو ایک بار کبیرہ گناہ ہونے یا بار بار صغیرہ گناہ ہونے پر غالب اور غفار پروردگار کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی بخشش مانگ لیتے ہیں، وہ گناہ پر قائم نہیں رہتے اور نہ ہی نافرمانی پر اصرار کرتے ہیں۔: اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان خدا ترس لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو خوشحالی اور تنگ دستی (ہر حال) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی نیک لوگوں
سے اللہ محبت رکھتا ہے۔ ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے ۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے پروردگار کے ہاں یہ ہے کہ وہ انہیں معاف کر دے گا اور ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ (اچھے) عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا بدلہ ہے ۔ نافرمانی پر اصرار کرنے والا وہ شخص ہے جو گناہ کرے، اور پھر بغیر توبہ اور استغفار کے دوبارہ پھر گناہ میں ملوث ہو جائے۔دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں گناہوں پر اصرار سے بچائے اور نیکی کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین یارب العالمین۔