حضرت عمر ؓ نے فرمایا: محتاجی اور غربت چھ چیزوں کی وجہ سے آتی ہے ۔1۔جلدی جلدی نماز پڑھنے سے ! نماز میں رکوع سجدہ وغیرہ سکون واطمینان کے ساتھ ادا کرنا ایک اہم ترین سنت ہے۔ اگر نماز میں رکوع سجدہ وغیرہ اطمینان کے ساتھ نہ ادا کیا جائے؛ بلکہ کوے کے چونچ مارنے کی طرح جلدی جلدی ادا کیا جائے تو نماز ناقص ومکروہ ہوتی ہے اور نماز کا ثواب بھی گھٹ جاتا ہے ،
آدمی جب باقاعدہ وقت نکال کر نماز کے لیے مسجد آتا ہے تو اُسے اچھی سے اچھی نماز پڑھنی چاہیے؛ تاکہ نمازکا پورا ثواب ملے، محض چند منٹ بچانے کے لیے عجلت وجلد بازی کے ساتھ نماز پڑھ کر نماز ناقص کرنا اور کم ثواب پر راضی ہونا عقل مندی نہیں ہے۔2۔کھڑے ہو کر رفع حاجت کرنے سے ! کسی بھی انسان کا کھڑے ہوکر پیشاب کرنا حرام نہیں ہے، لیکن بیٹھ کر پیشاب کرنا سنت ہے۔اس لئے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضي الله عنها فرماتی ہیں کہ جو تم سے یہ بیان کرے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب کرتے تھے تم اس کی تصدیق نہ کرو، کیونکہ آپ بیٹھ کر ہی پیشاب کرتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روايت كيا ہے، اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ اس باب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث ہے۔
اور اس لئے بھی کہ بیٹھ کر پیشاب کرنے میں زیادہ سترپوشی ہوتی ہے، اور اسی میں پیشاب کے چھینٹوں سے زیادہ حفاظت ہوتی ہے۔اور کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کے سلسلے میں سیدنا عمر، علی، ابن عمر، اور زید بن ثابت رضی الله عنهم سے اجازت اور چھوٹ منقول ہے،اس لئے کہ امام بخاری اور مسلم نے سیدنا حذیفہ رضي الله عنه سے روایت کیا ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔کہ آپ کسی قوم کی کوڑی (کوڑا پھینکنے کی جگہ) پر تشریف لائے اور آپ نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا اور اس حدیث اور حضرت عائشہ رضي الله عنها کی سابقہ حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لئے کہ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے یہاں کھڑے ہوکر پیشاب اس لئے کيا کہ یہ جگہ بیٹھنے کے مناسب نہیں تھی،
یا آپ نے اس لئے کیا، تاکہ لوگوں کو یہ بتلا دیں کہ کھڑے ہوکر پیشاب کرنا حرام نہیں ہے، اور اس سے اس حقیقت کی نفی نہیں ہوتی ہے جس کا ذکر سیدہ عائشہ رضي الله عنها نے کیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم ہمیشہ بیٹھ ہی کر پیشاب کیا کرتے تھے، اور یہ ایک سنت ہے، کوئی ایسا واجب نہیں ہے کہ اس کے خلاف کرنا حرام ہی ہو۔3۔کھڑے ہوکر پانی پینے سے ! حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس باب الرحبہ میں پانی لایا گیا۔تو انہوں نے کھڑے ہو کر پیا اورفرمایا :کہ لوگوں میں سے بعض کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو (ایسا ہی) کرتے دیکھا، جس طرح تم نے مجھے کرتے ہوئے دیکھا۔ 4۔منہ سے چراغ بجھانے سے !۔5۔دانت سے ناخن کاٹنے سے ! طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ
دانتوں سے ناخن کترنے والے افراد عموماً کاملیت پسند ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ہر کام کو نہایت خوبصورتی، توجہ اور بغیر کسی غلطی کے انجام دیتے ہیں۔ماہرین کے مطابق لوگ عموماً اس وقت ناخن کترتے ہیں جب وہ ذہنی تناؤ یا دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں وہ لاشعوری طور پر دانتوں سے ناخن چبانے لگتے ہیں اور انہیں اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ایک اور تحقیق کے مطابق ناخن کترنے کے عادی افراد اگر کسی چیز پر توجہ مرکوز کرنا چاہیں یا بہت گہری سوچ میں ڈوبے ہوں۔تب بھی وہ بے اختیار ناخن کھانے لگتے ہیں۔دانتوں سے ناخن کترنا دراصل ’نروس ہیبٹ‘ قرار دی جاتی ہے یعنی دماغی الجھن اور پریشانی کے وقت اختیار کی جانے والی عادت۔۔6۔دامن یا آستین سے ناک صاف کرنے سے !
آستین یا قمیص کے دامن سے منہ یا ہاتھ صاف کرنا خلافِ ادب ہے، اس سے احتراز کرنا چاہیے، تاہم اگر کرلیے تو گناہ نہیں ہوگا۔۔ایک بدو نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا حشر میں حساب کو ن لے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا”اللہ”وہ خوشی سے جھوم اٹھا اور چلتے چلتے کہنے لگا :بخدا تب تو ہم سب نجات پاگئے۔آپ ﷺ نے پوچھا وہ کیسے ؟اس نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کریم ہے اور کریم جب قابو پالیتا ہے ،تو معاف کردیتا ہے۔ وہ چلا گیا مگر جب تک نظر آتا رہا حضور نبی کریم ﷺ اس کا جملہ دہرا کرفرماتے رہے ،اس نے اپنے رب کو پہچان لیا،اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ شکریہ