شادی کی صحیح عمر کونسی ہے؟ 430

شادی کی صحیح عمر کونسی ہے؟

مذاہب اور نفسیاتی پہلو میں شادی کی صحیح عمر کونسی ہے؟ !!!!!!
ہم اگر اپنے مسئلے میں دیکھیں یا ہم اپنے آپ کو دیکھیں تو ہمارے کرائیٹیریا شادی کرنے کا اور کس عمر میں کرنی ہے یہ بندے سے بندہ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں جائیں تو ہماری شادی کی روایات سے لے کے اسکو کرنے کا طریقہ، وقت اور عمر آج کے زمانے سے بالکل مختلف ہے۔۔۔
ماضی میں ہماری تقریبات بھی سادی ہوتی تھیں اور زیادہ تر جو شادیاں ہوتی تھیں وہ کم عمری میں ہوتی تھیں۔
آج کے زمانے میں ہماری سوچ بھی بہت تبدیل ہو گئی ہے اور ہماری تقریبات بھی بڑی ہوگئی ہیں۔ آج کے دور میں ہم نمودونمائش کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ شادی آج کل ہماری نظر میں ایک شو بن گئی ہے کہ شادی ایسے کرنی ہے کہ دنیا دیکھے۔

اگر ہم شادی کی صحیح عمر کو مذہبی لحاظ سے دیکھیں تو کئی پہلو ہیں جو زیرِ بحث ہیں:
(1) لڑکا/لڑکی کے بالغ ہونے پر۔
(2) لڑکا خود کفیل ہونے پر۔

اب اگر ہم ظاہری نمود و نمائش کی بات کریں تو ہم یہ دیکھتے ہیں:
(1) لڑکے کا حسب و نسب کیسا ہے۔
(2) لڑکے کی تعلیم و تربیت یا دوسرے معنی میں کہ ڈگری کتنی بڑی ہے۔
(3) لڑکے کا بنک بیلنس کتنا ہے۔
(4) لڑکے کا کاروبار اسکی آمدنی۔
یہ وہ باتیں ہیں جو لڑکے میں اکثر نہیں بلکہ 100%دیکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح اگر دیکھا جائے تو کچھ ایسی ہی باتیں جو لڑکی میں دیکھی جاتی ہیں میں سب سے زیادہ یہ ہے۔۔۔
(1)لڑکی کا رنگ اور ظاہری خوبصورتی۔
(2)اسکی تعلیم و تربیت۔
(3)اسکا حسب و نسب۔
(4)جاب کرتی ہے کہ نہیں۔
(5) اسکو گھرداری آتی ہے کہ نہیں۔
(6) اس کا سلیقہ طریقہ۔
اور بہت ساری چیزیں۔
اسلام میں شادی کی صحیح عمر کے بارے میں جب بھی علماءِ کرام سے پوچھا گیا ہے تو ان کے بیان میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شادی تب کرنی چاہیے جب لڑکا بالغ ہو جائے اور عموماً لڑکا 15سال کی عمر میں بالغ کہلاتا ہے۔

بات یہاں پھروہی آتی ہے کہ 15سال کی عمر میں لڑکے کے پاس نہ کوئی جاب ہوتی ہے نہ ہی کوئی بنک بیلنس اور ہمارے معاشرے کی کسی بھی شرائط پر لڑکا پورا نہیں اترتا۔۔۔ ظاہر ہے ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا کرائیٹیریا اسکا خود کفیل ہونا ہے۔

تو ایسی صورتِ حال میں 2چیزیں زیرِ بحث آتی ہیں
(1)یا تو لڑکے کا باپ اسکی اور اسکی بیوی کی کفالت کا ذمہ لے۔
(2)اسکی وراثت ہو۔
تب ہی اتنی عمر میں شادی کا حکم ہے۔
اسی اسمیں اگر ہم حضرت محمد ﷺ کی زندگی مبارک سے احاطہ کریں تو ہمیں معلوم ہے کہ انکی پہلی شادی 25سال کی عمر میں طے پائی تھی۔ پر یہ شادی انکی نبوت سے پہلے کا عمل ہے۔ نبوت کے بعد جلد شادی کرنے کا حکم آیا ہے تو ہم پر وہ عمل سنت ہے جو نبوت کے بعد فرمایا۔
اسی طرح نبوت سے پہلے حضرت محمد ﷺ نے ایک بیوی سے افاقا کیا ہے۔
نبوت کے بعد زیادہ شادیوں کا حکم فرمایا۔ بات وہاں آجاتی ہے کہ لڑکا خود کفیل ہو تاکہ وہ اپنی بیوی کی ذمہ داریاں باخوبی پوری کر سکے۔۔۔

حکم ہے کہ جب تک لڑکا لڑکی کو الگ گھر نہ بنا کے دے دے تب تک اسکی شادی نہ کرو۔۔۔ اگر الگ گھر بنانے کی حیثیت نہیں تو کم ازکم الگ کمرہ، الگ کچن، الگ باتھ روم بنا کے دیں۔

اسلام میں بیوی کہ اپنی ازدواجی زندگی بغیر کسی کی مداخلت کے گزارنے کی آسانی دی ہو۔
مطلب ہم بہت سے کیسس میں دیکھتے ہں کہ بیوی کی شوہر کے گھر والوں سے نہیں بنتی تو اس میں شوہر پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ بیوی کو علیحدہ رہائش دے۔ واضح رہے کہ یہ بات کہیں بھی نہیں کی گئی ہے کہ والدین کو نظر انداز کیا جائے سب امن سے رہیں اس لیے یہ احکام عاید ہوئے۔۔۔
بات یہاں والدین کی نہیں بیوی کی ہو رہی ہے تو ادھر ہم صرف ازداواجی زندگی کے مسائل پر بات کریں گے۔

Shadi-ki-umer-شادی کی صحیح عمر کونسی ہے؟
Shadi-ki-umer-شادی کی صحیح عمر کونسی ہے؟

اب بات آتی ہے کہ شادی کے لیے لڑکا یا لڑکی نفسیاتی طور پر کتنا تیار ہیں یہ کہہ دیا جائے کہ 15سال کی عمر میں لڑکے کا ذہن کم ہوتا ہے وہ چیزوں کو اس لحاظ سے ہینڈل نہیں کرسکتا زندگی کا توازن نہیں بن سکتا تو یہ کچھ حد تک تو صحیح ہے لیکن ایسا ممکن ہر حال میں بھی نہیں کہ لڑکا 25کے بعد عقلمند ہوجاتا ہے اور شادی میں غلطی کی گنجائش کم ہوجاتی۔
ہر جگہ اور ہر معاملے میں یہ بات اتنی درست بھی نہیں۔ تو یہاں بات مینٹل کمپیٹی بلیٹی جسے عام الفاظ میں ذہنی ہم آہنگی کہتے ہیں جو اس رشتے کی بنیادی ضرورت ہے۔

تو اب یہ کب اور کیسے پیدا ہوگی مطلب ایک لڑکا اور لڑکی کب مینٹلی اتنے سٹرونگ ہونگے کہ وہ ایک دوسرے کے کمپیٹیبل بھی ہوں۔
اسکا تعلق عمر سے نہیں لگایا جاسکتا نہ ہی اسے عمر کے ساتھ منصوب کیا جاسکتا ہے اسکا تعلق پوری طرح سے تجربے کے ساتھ ہے جو زندگی کے ہر حصے میں انسان کرتا ہے۔ اکژ ہم اس بات پر جذباتی فیصلے لیتے ہیں اور جلدبازی کرتے ہیں۔ شادی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس پر آپ جذباتی ہو جائیں یا جلد بازی میں کوئی قدم اٹھائیں۔
حضرت علی( A.S) سے روایت ہے کہ “کوئی بھی فیصلہ زیادہ خوشی اور زیادہ غم میں نہ کرو” اس سے مراد ہمیں ہر طرف سے یہی بات واضح ہو رہی ہے کہ انسان جب تک ذہنی طور پر مضبوط نہ ہو کوئی فیصلہ نہ کرے۔

بات واضح ہو رہی ہے کہ
اللہ نے یہ دنیا بنائی اور اس دنیا میں جو پہلا رشتہ اللہ نے بھیجا وہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت ہوّا کا بطور میاں بیوی بنا کے بھیجا۔
ہم اگر اپنے مذہبی پہلو کو دیکھیں تو روایت میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ جب لڑکا بالغ اور عاقل ہو اسکی شادی کردی جائے تاکہ اسکا ایمان مکمل ہوجائے اور یہ برائی سے بچ جائے۔

Spread the love

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں