دنیا اور آخرت کے درمیان ایک اور عالَم ہے جس کو برزخ کہتے ہیں [1]، مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے تمام اِنس وجن کو حسبِ مراتب اُس میں رہنا ہوتا ہے[2]، اور یہ عالَم اِس دنیا سے بہت بڑا ہے۔ دنیا کے ساتھ برزخ کو وہی نسبت ہے جو ماں کے پیٹ کے ساتھ دنیا کو[3]، برزخ میں کسی کو آرام ہے اور کسی کو تکلیف۔[4]
عقیدہ(۱): ہر شخص کی جتنی زندگی مقرّر ہے اُس میں نہ زیادتی ہو سکتی ہے نہ کمی[5]، جب زندگی کا وقت پورا ہو جاتا ہے، اُس وقت حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام قبضِ روح کے لیے آتے ہیں [6] اُس شخص کے دہنے بائیں جہاں تک نگاہ کام کرتی ہے فرشتے دکھائی دیتے ہیں ، مسلمان کے آس پاس رحمت کے فرشتے ہوتے ہیں اور کافر کے دہنے بائیں عذاب کے۔ [7] اُس وقت ہر شخص پر اسلام کی حقّانیت آفتاب سے زیادہ روشن ہو جاتی ہے، مگر اُس وقت کا ایمان معتبر نہیں ، اس لیے کہ حکم ایمان بالغیب کا ہے اور اب غیب نہ رہا، بلکہ یہ چیزیں مشاہد ہو گئیں ۔[8]
عقیدہ (۲):مرنے کے بعد بھی روح کا تعلق بدنِ انسان کے ساتھ باقی رہتا ہے، اگرچہ روح بدن سے جُدا ہو گئی، مگر بدن پر جو گزرے گی رُوح ضرور اُس سے آگاہ و متأثر ہوگی، جس طرح حیاتِ دنیا میں ہوتی ہے، بلکہ اُس سے زائد۔ دنیا میں ٹھنڈا پانی، سرد ہَوا، نرم فرش، لذیذ کھانا، سب باتیں جسم پر وارِد ہوتی ہیں ، مگر راحت و لذّت روح کو پہنچتی ہے اور ان کے عکس بھی جسم ہی پر وارِد ہوتے ہیں اور کُلفت و اذیّت روح پاتی ہے،اور روح کے لیے خاص اپنی راحت واَلم کے الگ اسباب ہیں ، جن سے سرور یا غم پیداہوتا ہے، بعینہٖ[9] یہی سب حالتیں برزخ میں ہیں ۔[10]
عقیدہ (۳): مرنے کے بعد مسلمان کی روح حسبِ مرتبہ مختلف مقاموں میں رہتی ہے، بعض کی قبر پر[11] ، بعض کی چاہِ زمزم شریف[12] میں [13]، بعض کی آسمان و زمین کے درمیان[14]، بعض کی پہلے، دوسرے، ساتویں آسمان تک[15]اور بعض کی آسمانوں سے بھی بلند، اور بعض کی روحیں زیرِ عرش قندیلوں [16] میں [17]، اور بعض کی اعلٰی عِلّیین[18] میں [19] مگر کہیں ہوں ، اپنے جسم سے اُن کو تعلق بدستور رہتا ہے۔ جو کوئی قبر پر آئے اُسے دیکھتے، پہچانتے، اُس کی بات سنتے ہیں [20]، بلکہ روح کا دیکھنا قُربِ قبر ہی سے مخصوص نہیں ، اِس کی مثال حدیث میں یہ فرمائی ہے، کہ ’’ایک طائر پہلے قفص[21] میں بند تھا اور اب آزاد کر دیا گیا۔‘‘[22] ائمۂ کرام فرماتے ہیں:’إِنَّ النُّفُوْسَ القُدْسِیَّۃَ إِذَا تَجَرَّدَتْ عَنِِِ الْـعَـلَا ئِقِ الْبَدَنِیَّۃِ اتّصَلَتْ بِالْمَلَإِ الْأَعْلٰی وَتَرٰی وَتَسْمَعُ الکُلَّ کَالْمُشَاھِدِ ۔‘‘ [23]
’’بیشک پاک جانیں جب بدن کے عَلاقوں سے جدا ہوتی ہیں ، عالمِ بالا سے مل جاتی ہیں اور سب کچھ ایسا دیکھتی سنتی ہیں جیسے یہاں حاضر ہیں ۔‘‘
حدیث میں فرمایا:
((إِذَا مَاتَ الْمُؤْمِنُ یُخلّٰی سَرْبُہٗ یَسْرَحُ حَیْثُ شآءَ۔))[24] ’’جب مسلما ن مرتا ہے اُس کی راہ کھول دی جاتی ہے، جہاں چاہے جائے۔‘‘
شاہ عبدالعزیز صاحب لکھتے ہیں [25] : ’’روح را قُرب و بُعد مکانی یکساں است۔‘‘ [26]
کافروں کی خبیث روحیں بعض کی اُن کے مرگھٹ[27]، یا قبر پر رہتی ہیں ، بعض کی چاہِ برہُوت میں کہ یمن میں ایک نالہ ہے[28]، بعض کی پہلی، دوسری، ساتویں زمین تک[29]، بعض کی اُس کے بھی نیچے سجّین[30] میں [31]، اور وہ کہیں بھی ہو، جو اُس کی قبر یا مرگھٹ پر گزرے اُسے دیکھتے، پہچانتے، بات سُنتے ہیں ، مگر کہیں جانے آنے کا اختیار نہیں ، کہ قید ہیں ۔
عقیدہ( ۴): یہ خیال کہ وہ روح کسی دوسرے بدن میں چلی جاتی ہے، خواہ وہ آدمی کا بدن ہو یا کسی اور جانور کا جس کو تناسخ اور آواگَوَن کہتے ہیں ، محض باطل اور اُس کا ماننا کفر ہے۔[32] عقیدہ (۵): موت کے معنی روح کا جسم سے جدا ہو جانا ہیں ، نہ یہ کہ روح مر جاتی ہو، جو روح کو فنا مانے، بد مذہب ہے۔[33] عقیدہ (۶): مردہ کلام بھی کرتا ہے اور اُس کے کلام کو عوام، جن اور انسان کے سوا اور تمام حیوانات وغیرہ سنتے بھی ہیں۔[34]
عقیدہ (۷): جب مردہ کو قبر میں دفن کرتے ہیں ، اُس وقت اُس کو قبر دباتی ہے۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اُس کا دبانا ایسا ہوتا ہے کہ جیسے ماں پیار میں اپنے بچّے کو زور سے چپٹا لیتی ہے[35] ، اور اگر کافر ہے تو اُس کو اِس زور سے دباتی ہے کہ اِدھر کی پسلیاں اُدھر اور اُدھر کی اِدھر ہو جاتی ہیں ۔[36]
عقیدہ (۸): جب دفن کرنے والے دفن کرکے وہاں سے چلتے ہیں وہ اُن کے جوتوں کی آواز سنتا ہے[37]، اُس وقت اُس کے پاس دو فرشتے اپنے دانتوں سے زمین چیرتے ہوئے آتے ہیں [38]، اُن کی شکلیں نہایت ڈراؤنی اور ہیبت ناک ہوتی ہیں [39]، اُن کے بدن کا رنگ سیاہ[40]، اور آنکھیں سیاہ اور نیلی[41]، اور دیگ کی برابر اور شعلہ زن ہیں [42]، اور اُن کے مُہیب[43]بال سر سے پاؤں تک[44]، اور اُن کے دانت کئی ہاتھ کے[45]، جن سے زمین چیرتے ہوئے آئیں گے[46]، اُن میں ایک کو منکَر، دوسرے کو نکیر کہتے ہیں[47] ،مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں ۔[48]
پہلا سوال: ((مَنْ رَّبُّکَ؟))
’’تیرا رب کو ن ہے؟‘‘
دوسرا سوال: ((مَا دِیْنُکَ؟))
’’تیرا دین کیا ہے؟‘‘
تیسرا سوال: ((مَا کُنْتَ تَقُولُ فِيْ ھَذَا الرَّجُلِ؟))
’’ان کے بارے میں تُو کیا کہتا تھا؟‘‘
مردہ مسلمان ہے تو پہلے سوال کا جواب دے گا:
(رَبِّيَ اللہُ۔))
’’میرا رب اﷲ (عَزَّوَجَلَّ) ہے۔‘‘
اور دوسرے کا جواب دے گا :
((دِیْنِيَ الإِسْلاَمُ۔))
’’میرا دین اسلام ہے۔‘‘
تیسرے سوال کا جواب دے گا:
((ھُوَ رَسُوْلُ اللہِ صلّی اللہ تعالٰی علیْہ وَسلَّم۔))
’’وہ تو رسول اﷲ صَلَّی اﷲُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم ہیں ۔‘‘
وہ کہیں گے، تجھے کس نے بتایا؟ کہے گا: میں نے اﷲ (عَزَّوَجَلَّ) کی کتاب پڑھی، اس پر ایمان لایا اور تصدیق کی۔ [49] بعض روایتوں میں آیا ہے، کہ سوال کا جواب پا کر کہیں گے کہ ہمیں تو معلوم تھا کہ تُو یہی کہے گا[50]، اُس وقت آسمان سے ایک منادی ندا کرے گا کہ میرے بندہ نے سچ کہا، اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھاؤ، اور جنت کا لباس پہناؤ اور اس کے لیے جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ جنت کی نسیم اور خوشبو اُس کے پاس آتی رہے گی اور جہاں تک نگاہ پھیلے گی، وہاں تک اُس کی قبر کشادہ کردی جائے گی[51] اور اُس سے کہا جائے گا کہ تو سو جیسے دُولہا سوتا ہے۔[52] یہ خواص کے لیے عموماً ہے اور عوام میں اُن کے لیے جن کو وہ چاہے، ورنہ وسعتِ قبر حسبِ مراتب مختلف ہے[53] ، بعض کیلئے ستّر ستّر ہاتھ لمبی چوڑی[54]، بعض کے لیے جتنی وہ چاہے زیادہ[55]، حتیٰ کہ جہاں تک نگاہ پہنچے[56] ، اور عُصاۃ[57] میں بعض پر عذاب بھی ہو گا ان کی معصیت کے لائق[58] ، پھر اُس کے پیرانِ عظام یا مذہب کے امام یا اور اولیائے کرام کی شفاعت یا محض رحمت سے جب وہ چاہے گا ،نجات پائیں گے[59] ، اور بعض نے کہا کہ مؤمن عاصی پر عذابِ قبر شبِ جمعہ آنے تک ہے، اس کے آتے ہی اٹھا لیا جائے گا[60]، واﷲتَعَالٰی اعلم۔
ہاں ! یہ حدیث سے ثابت ہے کہ جو مسلمان شبِ جمعہ یا روزِ جمعہ یا رمضانِ مبارک کے کسی دن رات میں مرے گا، سوالِ نکیرین و عذابِ قبر سے محفوظ رہے گا۔[61] اور یہ جو ارشاد ہوا کہ اُس کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دیں گے، یہ یوں ہو گا کے پہلے اُس کے بائیں ہاتھ کی طرف جہنم کی کھڑکی کھولیں گے، جس کی لپٹ اور جلن اور گرم ہوا اور سخت بدبو آئے گی اور معاً[62] بند کر دیں گے، اُس کے بعد دہنی طرف سے جنت کی کھڑکی کھولیں گے اور اُس سے کہا جائے گا کہ اگر تُو اِن سوالوں کے صحیح جواب نہ دیتا تو تیرے واسطے وہ تھی اور اب یہ ہے، تاکہ وہ اپنے رب کی نعمت کی قدر جانے کہ کیسی بلائے عظیم سے بچا کر کیسی نعمتِ عظمیٰ عطا فرمائی۔ اور منافق کے لیے اس کا عکس ہوگا،
پہلے جنت کی کھڑکی کھولیں گے کہ اس کی خوشبو، ٹھنڈک، راحت، نعمت کی جھلک دیکھے گا اور معاً بند کر دیں گے اور دوزخ کی کھڑکی کھول دیں گے، تاکہ اُس پر اس بلائے عظیم کے ساتھ حسرتِ عظیم بھی ہو[63] ، کہ حضور اقدس صلی اﷲ تَعَالٰی علیہ وسلم کو نہ مان کر، یا اُن کی شانِ رفیع میں ادنیٰ گستاخی کرکے کیسی نعمت کھوئی اور کیسی آفت پائی! اور اگر مُردہ منافق ہے تو سب سوالوں کے جواب میں یہ کہے گا: ((ھَاہْ ھَاہْ لَا أَدْرِِي۔))
’’افسوس! مجھے توکچھ معلوم نہیں ۔‘‘
((کُنْتُ أَسْمَعُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْئاً فأقوْلُ۔))
’’میں لوگوں کو کہتے سنتا تھا، خود بھی کہتا تھا۔‘‘
اس وقت ایک پکارنے والا آسمان سے پکارے گا: کہ یہ جھوٹا ہے، اس کے لیے آگ کا بچھونا بچھاؤ اور آگ کا لباس پہناؤ اور جہنم کی طرف ایک دروازہ کھول دو۔ اس کی گرمی اور لپٹ اس کو پہنچے گی اور اس پر عذاب دینے کے لیے دو فرشتے مقرر ہوں گے، جو اندھے اور بہرے ہوں گے، ان کے ساتھ لوہے کاگُرز ہو گا کہ پہاڑ پر اگر مارا جائے تو خاک ہو جائے، اُس ہتوڑے سے اُس کو مارتے رہیں گے۔[64] نیز سانپ اور بچھو اسے عذاب پہنچاتے رہیں گے[65]، نیز اعمال اپنے مناسب شکل پر متشکل ہو کر کتّا یا بھیڑیا یا اور شکل کے بن کر اُس کو ایذا پہنچائیں گے اور نیکوں کے اعمالِ حَسَنہ مقبول و محبوب صورت پر متشکل ہو کر اُنس دیں گے۔
عقیدہ(۹): عذابِ قبر حق ہے[66]۔اور یوہیں تنعیمِ قبر حق ہے[67]، اور دونوں جسم وروح دونوں پر ہیں [68]، جیسا کہ اوپر گزرا۔ جسم اگرچہ گل جائے، جل جائے، خاک ہو جائے، مگر اُس کے اجزائے اصلیہ قیامت تک باقی رہیں گے، وہ مُوردِ عذاب وثواب ہوں گے[69] اور اُنھیں پر روزِ قیامت دوبارہ ترکیبِ جسم فرمائی جائے گی، وہ کچھ ایسے باریک اجزا ہیں ریڑھ کی ہڈی میں جس کو ’’عَجبُ الذَّنب‘‘ کہتے ہیں ، کہ نہ کسی خوردبین سے نظر آسکتے ہیں ، نہ آگ اُنھیں جلا سکتی ہے، نہ زمین اُنھیں گلا سکتی ہے، وہی تُخمِ جسم ہیں ۔ ولہٰذا روزِ قیامت روحوں کا اِعادہ [70]اُسی جسم میں ہوگا، نہ جسمِ دیگر میں ،بالائی زائد اجزا کا گھٹنا، بڑھنا، جسم کو نہیں بدلتا، جیسا:
بچہ کتنا چھوٹا پیدا ہوتا ہے، پھر کتنا بڑا ہو جاتاہے، قوی ہیکل جوان بیماری میں گھل کر کتنا حقیر رہ جاتا ہے، پھر نیا گوشت پوست آکر مثلِ سابق ہوجاتا ہے، اِن تبدیلیوں سے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ شخص بدل گیا۔ یوہیں روزِ قیامت کا عَود ہے[71]، وہی گوشت اور ہڈیاں کہ خاک یا راکھ ہوگئے ہوں ، اُن کے ذرّے کہیں بھی منتشر ہو گئے ہوں ، رب عَزَّوَجَلَّ انھیں جمع فرما کر اُس پہلی ہیئت پر لا کر اُنھیں پہلے اجزائے اصلیہ پر کہ محفوظ ہیں ، ترکیب دے گا اور ہر رُوح کو اُسی جسمِ سابق میں بھیجے گا، اِس کا نام حشر ہے[72]، عذاب وتنعیمِ قبر کا اِنکار وہی کرے گا، جو گمراہ ہے۔[73]
عقیدہ (۱۰): مردہ اگر قبر میں دفن نہ کیا جائے تو جہاں پڑا رہ گیا یا پھینک دیا گیا، غرض کہیں ہو اُس سے وہیں سوالات ہوں گے اور وہیں ثواب یا عذاب اُسے پہنچے گا، یہاں تک کہ جسے شیر کھا گیا تو شیر کے پیٹ میں سوال و ثواب و عذاب جو کچھ ہو پہنچے گا۔[74]
مسئلہ : انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام اور اولیائے کرام وعلمائے دین وشہدا وحافظانِ قرآن کہ قرآن مجید پر عمل کرتے ہوں اور وہ جو منصب محبت پر فائز ہیں اور وہ جسم جس نے کبھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی معصیت نہ کی اور وہ کہ اپنے اوقات درود شریف میں مستغر ق رکھتے ہیں ، ان کے بدن کو مٹی نہیں کھاسکتی[75]۔جو شخص انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی شان میں یہ خبیث کلمہ کہے کہ مرکے مٹی میں مل گئے[76] ،گمراہ ، بددین ، خبیث ، مرتکب توہین ہے