خواتین و حضرات آج آپ کو کوئین الیزبتھ دوئم کے متعلق کچھ ایسے حقائق بتانے جا رہے ہیں جو آپ یقینا نہیں جانتے ہوں گے۔ اپنی بات کو مزید آگے بڑھانے سے پہلے آپ کو کچھ معلومات دینا ضروری ہیں وہ یہ کہ اہلِ بیت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں گھر والے لیکن جب دینِ اسلام کی بات کی جائے تو اس کا مطلب ہے آپ ﷺ کے گھر والے۔جس میں حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ ان کی اولاد اور آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات شامل ہیں۔اہلِ بیت کی نسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے لیے نہایت محترم اور عقیدت کے لائق ہیں۔انھیں سیّد یعنی سردار کہا جاتا ہے۔
لیکن ہمارا آج کا موضوع اہلِ بیت نہیں ہے۔بلکہ آج ہم ملکہ برطانیہ الیزبتھ دوئم کے متعلق ایسے انکشافات اور تحقیقات سے آگاہ کریں گے جن کی بنیاد پر اہلِ برطانیہ ان کو اہلِ بیت کی اولاد میں شمار کرنے لگے ہیں۔ اس کی حقیقت کیا ہے آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔ 21اپریل 1926کو جنم لینے والی ملکہ برطانیہ یعنی کوئین الیزبتھ دوئم1952سے 1956تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بھی ملکہ رہی ہیں۔آج بھی وہ کامن ویلتھ کے 14ممالک کی کوئین ہیں۔یہاں تک کہ آسٹریلیا اور کینیڈا سمیت بہت سے ممالک ایسے ہیں جن کے کرنسی نوٹوں پر ملکہ برطانیہ کی تصویر چھاپی جاتی ہے۔
ملکہ کو بچپن سے کتے پالنے اور گھوڑ سواری کا شوق ہے۔انھیں فرانسیسی زبان بولنے میں بھی مہارت حاصل ہے۔ وہ اب تک دنیا کے 100سے زیادہ ممالک کے دورے کر چکی ہیں۔جن میں 1961اور 1997کے پاکستان کے سرکاری دورے بھی شامل ہیں۔ مورخین بساء اوقات ماضی کے بارے میں ایسے دعوے کردیتے ہیں کہ جو بھی سنتا ہے وہ حیران رہ جاتا ہے۔اور اب ایسا ہی ایک دعویٰ ملکہ برطانیہ الیزبتھ کے بارے میں کردیا گیا ہے۔مغربی مورخین نے دعویٰ کیا ہے کہ ملکہ الیزبتھ کرونِ وسطیٰ کے ہسپانیہ کے ان مسلمان حکمرانوں کی نسل سے ہیں جن کا شجرہ نسب حضور ﷺ کی نسل سے جا کر مل جاتا ہے۔مغربی مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرونِ وسطیٰ کے یہ مسلمان حضرت امام حسین ؓکی نسل سے تھے جو حجازِ مقدس سے سپین منتقل ہوئے۔اور وہاں حکومت کی۔ان میں سے ایک بادشاہ کا نام المعتمد ابنِ عباد بتایا جاتا ہے۔جس کی ایک بیٹی شہزادی زیدہ تھی۔جو سپین کے شہر شوائل میں رہتی تھی۔یہ گیارویں صدی عیسوی کا واقعہ بتایا جاتا ہے۔کہ جب یہ شہزادی شوائل سے چلی گئی اور بعد ازاں اس نے عیسائیت قبول کرلی۔
لہٰذا مورخین کا دعویٰ ہے کہ ملکہ اسی شہزادی کی نسل سے ہیں۔اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سپین کی قدیم ریکارڈ سے بھی مورخین کے اس دعوےٰ کی تصدیق ہوتی ہے۔اور مصر کے سابق مفتی اعظم علی گوما بھی اس کی تصدیق کرچکے ہیں۔ ابتدائی طور پر1986میں یہ دعویٰ برطانوی ادارے برٹش پیلس نے کیا تھا۔ اور یہ وہ ادارہ ہے جو برطانوی شاہی خاندان کا شجرہ نسب کا ریکارڈ رکھنے کا ذمہ دار ہے۔1986میں اس انکشاف کے بعد ادارے نے اس وقت کی برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کولکھا تھا کہ وہ شاہی خاندان اور خاص طور پر ملکہ کی سیکورٹی بڑھا دیں۔ اور اس نے مزید لکھا تھا کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ملکہ کی رگوں میں مسلم خون دوڑ رہا ہے۔لیکن مذہبی رہنما اس سے آگاہ ہیں۔ لہٰذا انتہا پسندوں سے ملکہ کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔اس لیے ان کی سیکورٹی میں اضافہ کرنے لازمی ہے۔
بہت سے مورخین نے اس دعویٰ کو مسترد کردیا۔ کیونکہ ان کا یہ ماننا تھا کہ اہلِ بیت سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شخص مرنا تو پسند کر سکتا ہے لیکن کسی بھی صورت میں مذہب تبدیل نہیں کرسکتا۔لہٰذا یہ سب من گھڑت باتیں ہیں اور ان میں کسی قسم کی کوئی سچائی نہیں ہے۔ پوری مغربی دنیا میں DNAکے ذریعے کسی بھی انسان کا شجرہ نسب جاننے کے بارے میں بہت تیزی سے کام ہو رہا ہے۔اور اب وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ہم درجنوں اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں معلوم کر سکیں گے۔جس کے لیے ہمیں کسی مورخ کی قیاس آرائیوں کی بجاے جدید سائنسی تحقیق کی صداقت پر انحصار کرنا پڑے گا۔
اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ ملکہ برطانیہ کتنی طاقتور ہیں۔ وہ اگر اپنی طاقت استعمال کرنا چاہیں توقانون کے مطابق ملکہ کے اختیارات کیا کیا ہیں۔ برطانیہ کے قوانین کے مطابق ملکہ ٹیکس دینے سے آزاد ہے۔ لیکن ملکہ اپنے بارے اچھا تائثر دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر ٹیکس دیتی ہیں۔ یہ پاسپورٹ اور لائسنس جیسی پابندیوں سے آزاد ہیں۔اور وہ بغیر اجازت کے جہاں بھی چاہیں آجا سکتی ہیں۔ملکہ کو ڈرئیونگ کرنے کا شوق بہت زیادہ ہے۔اور ایک مشہور واقعہ ہے کہ انھوں نے سعودی حکومت کے بادشاہ عبداللہ کو خود گاڑی چلا کے سیر کروائی۔ برطانیہ میں پاسپورٹ جاری کرنے اور منسوخ کرنے کا اختیار ملکہ کو ہے۔ملکہ کسی بھی ملک کے ساتھ بغیر پارلیمنٹ کی اجازت کے جنگ کا اعلان بھی کر سکتی ہیں۔برطانیہ کے ہر قانون سے ملکہ بالاتر ہیں۔جبکہ دوسرے ممالک میں سربراہ مملکت ہونے کی وجہ سے ان کو ڈپلومیٹ تحفظ بھی حاصل ہے۔اس کے مطلب یہ ہے کہ ملکہ دنیا بھر میں کسی بھی طرح کا جرم کرسکتی ہیں۔اس کے علاوہ ان پر فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ بھی لاگو نہیں ہوتا۔لہٰذا ان کو قانونی طور پر کسی کو کچھ بھی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔تیکنیکی لحاظ سے برطانیہ میں رہے والے برطانوی شہری نہیں ہیں بلکہ وہ تاجِ برطانیہ کی رعایا ہیں۔اس طرح ملکہ کسی بھی شخص کو گرفتار کرواسکتی ہے۔ اور کسی کی بھی جائیداد ضبط کرواسکتی ہے۔برطانیہ میں تمام سمندری زمین ملکہ کی ملکیت ہے۔ جس چلنے والے بحری جہاز کو کوئی بھی حکم جاری کرسکتی ہیں۔ اور اگر سمندر سے کوئی ویل یا ڈولفن خشکی پر آجائے تو اس پر حق ملکہ کا ہوگا۔ اور دریاءِ ٹیمز کے تمام پرندے بھی ملکہ کی ملکیت ہیں۔اس کے علاوہ ملک میں امن و آمان قائم رکھنے کے لیے کسی پر بھی تشدد کا حکم جاری کرسکتی ہیں۔ اور جب چاہیں اپنی مرضی کا وزیر اعظم بنا سکتی ہیں۔عوام چاہے جس کو بھی ووٹ دے۔یہاں تک کے پارلیمنٹ پسند نہ آنے پر اس کو بھی توڑ سکتی ہیں۔اور دوبارہ انتخاب کرواسکتی ہیں۔ اور اگر بالکل پسند نہ آئے تو وہ فوجی حکومت بھی لاسکتی ہیں۔ کیونکہ فوجی کمانڈر ان چیف اور افواجِ برطانیہ کے سربراہان ان کے ماتحت ہیں۔ ہر فوجی اور افسران تاجِ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے۔
ملکہ برطانیہ کی طاقت نہ صرف سیاسی ہے بلکہ مذہبی بھی ہے۔ ملکہ چرچ کی سربراہ بھی ہیں۔ جو چرچ کے تمام انتظامی امور کی سربرہ بھی ہیں۔ ملکہ برطانیہ کے پاس ایک تاج ہے جس کا نام امپیریل سٹیٹ کراؤن ہے۔جسے ملکہ برطانیہ کے والد جارج ششم نے 1937میں بنوایا تھا۔تاج میں جڑے ہیرے کا نام ٹیرن ہے جس کی مالیت90ارب سے زائد ہے۔ اس تاج کا وزن ایک کلو پانچ سو گرام ہے جو کہ خالص سونے کا ہے۔تاج میں تین ہزار قیمتی پتھر بھی جڑے ہوئے ہیں۔ یہ تاج ملکہ خاص مواقعہ پر ہی پہنتی ہیں۔
460